en-USur-PK
  |  
13

جائیرس کی لڑکی کو زندہ کرنا

posted on
جائیرس کی لڑکی کو زندہ کرنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

6-Miracle   

Jesus Rise Jairu’s Daugther

Matthew 9:18-19 and 23-26

 

جائیرس کی لڑکی کو زندہ کرنا

۶ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۹باب ۱۸ سے ۱۹ اور ۲۳سے ۲۶آیت

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

حضرت مرقس اور حضرت لوقا اس معجزہ کو ایسےطورپربیان کرتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ گویا وہ اس وقت واقع ہوا جبکہ آپ ( مسیح ) نے گدارا کے ملک کو اس جگہ کے لوگوں کی درخواست کے مطابق چھوڑدیا۔لیکن حضرت متی اس واقعہ اور اس معجزے کے بیان کے درمیان کئی اور واقعات درج کرتے ہیں ۔ مثلا ً مفلوج کو شفا بخشنا ، حضرت متی کو بلانا اور فریسیوں (یہودی علما کا ایک فرقہ ) کے ساتھ بعض باتوں پر گفتگو کرنا ۔ لیکن تطبیق ودہندوں کی رائے کے مطابق صرف فریسیوں کے ساتھ باتیں کرنا اس معجزے کے پہلے واقع ہوا ( انجیل شرف بہ مطابق حضرت متی 9باب آیت 10تا 17)۔

انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی 9باب آیت 18۔اور وہ یعنی سیدنا مسیح ان سے یہ باتیں کہے ہی رہے تھے ۔ان لفظوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سردار نے عین اس وقت درخواست کی جبکہ آپ حضرت یوحنااور فریسیوں کے شاگردوں سے باتیں کررہے تھے۔ ( مقابلہ کریں آیت 14کے ساتھ) پس یہ معجزات کفرناحوم میں واقعہ ہوئے۔

دیکھو ایک سردار نے آکر سجدہ کیا اور کہا کہ میری بیٹی ابھی مری ہے لیکن آپ چل کر اپنا ہاتھ اس پر رکھ دیں تو زندہ ہوجائے گی۔

ایک سردار نے آکر سجدہ کیا لفظ سردار اکیلا صاف مطلب بیان نہیں کرتا کیونکہ اس سے مراد سنہیڈرین(یہودیوں کی شرعی عدالت ) کا ممبر بھی ہوسکتا ہے۔ جیساکہ نقودیمس یہودیوں کا سردار کہلاتا تھا۔ ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا 3باب آیت 1) مگر حضرت مرقس بتاتے ہیں کہ وہ عبادت خانہ کے سرداروں میں سے ایک تھا۔ عبادتخانہ کے سردار عبادت کا اہتمام کیا کرتے تھے ( انجیل شریف اعمالراسل  13باب 15آیت) اور لوگوں کے سوشل رشتوں اور چال چلن پر بھی ان کا اثر پڑتا تھا۔ پس یہ شخص عزت والا آدمی تھا۔ حضرت لوقا اور حضرت مرقس بتاتے ہیں کہ اس کا نام جائیرس تھا۔ اور وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ عبادت خانہ کا سردار تھا۔ اس میں شک نہیں تھا عبادت خانہ کفرناحوم کا تھا۔ جہاں اس وقت جناب مسیح موجود تھے۔ ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی 9باب 1آیت ) اور غالباً یہ سردار ان لوگوں میں شامل تھا جو بعد میں صوبہ دار کی سفارش کے لئے مسیح کے پاس آئے ۔ ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا 7باب 23آیت ) حضرت متی شائد اس واسطے اس کا مفصل حال نہیں لکھتے کہ وہ صرف اصل واقعہ کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔

انہیں ( مسیح ) سجدہ کیا۔ حضرت مرقس اورحضرت لوقا کہتے ہیں کہ وہ آپ کے قدموں پر گرا ۔ یہ گویا حددرجہ کا تعظیم کا اظہار تھا۔ واضح ہو کہ اس شخص کی تکلیف اسے مسیح کے پا س لائی ۔ کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ ملازم کے بیٹے کے شفا یاب ہونے ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا 4باب 31آیت تا 42) اور مفلوج کے شفا پانے (انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا 5باب آیت 12تا26)اور صوبہ کے لڑکے کے تندرست ہونے (انجیل شریف بہ مطاب حضرت لوقا 7باب آیت 1تا10)کے واقعات نے جو کفرناحم میں سرزد ہوئے اس پر کچھ اثر  پید ا نہ کیا۔ مگر اب جبکہ خود ضرورت میں مبتلا ہوا تو اس نے ان باتوں کو یاد کیا۔ اور دلیر ہوکر مسیح کے پاس آیا۔ اور آپ کے سامنے گرا اور آپ کو اپنے دکھ سے آگاہ کیا۔

میری بیٹی ابھی مری ہے۔ حضرت مرقس بیان کرتے ہیں کہ اس نے یہ الفاظ بڑی منت اور سماجت کے ساتھ کہے۔ علاوہ بریں حضرت مرقس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکی ایک چھوٹی سی لڑکی تھی جو ابھی مری نہیں تھی بلکہ قریب المرگ تھی اور حضرت لوقا سے معلوم ہوتاہے کہ وہ اس کی اکلوتی بیٹی تھی ۔اور عمر میں بارہ برس کی تھی۔ ان باتوں کی تفصیل کا ظاہر کرنا حضرت لوقا کے پیشہ طبابت سے مناسبت رکھتا ہے۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس بیان میں دو دفعہ  بارہ کا عدد مذکور ہوا ہے۔ یہ لڑکی بارہ برس کی تھی اور ایک عورت کا خون بارہ برس سے جاری تھا۔ اگر کسی نے فریب دینے کو یہ معجزہ گھڑا ہوتا وہ ان دونوں معجزوں میس اس عددی مشابہت کو ہر گز نہ رہنے دیتا۔ حضرت مرقس کی طرح حضرت لوقا بھی یہی خبردیتے ہیں کہ لڑکی مری نہیں تھی پر مرنے پر تھی ۔ (انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس 5باب آیت 23اور حضرت لوقا 8باب 42آیت ) اب حضرت متی سے تو معلوم ہوتاہے کہ گویا سردار کہتا ہے کہ لڑکی مرگئی  ہے پر حضرت مرقس اور حضرت لوقا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی مری نہیں تھی۔ بلکہ قریب المرگ تھی۔ اور باقی بیان بھی حضرت مرقس اور حضر ت لوقا کی تائید کرتا ہے۔ کیا ان دونوں بیانوں میں اختلاف  نہیں ہے ؟نہیں ان میں اختلاف نہیں ہے ۔ کیونکہ جس وقت جائیرس نے اسے چھوڑا تھا وہ قریب المرگ تھی۔ اور وہ جانتا تھا کہ تھوڑے عرصہ کے بعد وہ کام تمام ہوجائے گا ۔ پس جس وقت وہ مسیح کے ساتھ باتیں کرتا تھا اسے یہ خیال تھاکہ لڑکی شائد اب مرگئی ہوگی۔ مگر چونکہ پختہ طور پر نہیں جانتا تھاکہ وہ مرگئی ہے لہذا کبھی اسے مردہ اور کبھی قریب المرگ بناتا ہے ۔ اس معاملہ کو جو عین ہمارے دستور اور تجربہ کے مطابق ہے۔ اختلاف  کہنا بڑے تعجب کی بات ہے وہ مضطرب حالت میں تھا۔ اور بولنے سے پہلے اپنے الفاظ کو میزان حقیقت میں تو ل نہیں سکتا تھا۔

لیکن چل کر اپنا ہاتھ اس پر رکھئیے،تو وہ زندہ ہوجائے گی۔شاید جائیرس خیال کرتا تھا کہ یہ ضروری امر ہے کہ مسیح آئیں اور لڑکی کے جسم کو چھوئیں۔ جیسا کہ اسی شہر کے بادشاہ کا ملازم خیال کرتا تھا۔ (انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا 4باب آیت 46تا49) لیکن صوبہ دار زیادہ صحیح خیال کاآدمی تھا۔ (انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا 8باب 8آیت ) اس کی دعا ایمان اور بے اعتقادی کا عجیب مرکب ہے۔ وہ خیال کرتا تھا کہ آپ کا جانا ہی لڑکی کی شفا کے لئے ضروری ہے ۔ لیکن مسیح راستہ میں دیر لگاتے ہیں جس سے اس  کی فکر اور تردد اور بھی دوبالا ہوجاتا ہے ۔

آیت نمبر ۱۹۔مسیح اٹھ کر اپنے شاگردوں سمیت اس کے پیچھے ہولئے ۔

حضرت مرقس اور حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ نہ صرف آپ کے شاگرد بلکہ اور لوگ بھی آپ کے پیچھے ہولئے ۔ تاکہ دیکھیں کہ آپ کے جانے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ اس موقعہ پر ایک اور معجزہ سرزد ہوا۔ یعنی اس عورت نےشفا پائی جس کے بارہ برس سے خون جاری تھا۔ لیکن اس معجزہ کا بیان علیحدہ کیا جائے گا۔ کیونکہ وہ ایک علیحدہ واقعہ ہے گو اس کا تعلق ایک طرح اس سے بھی ہے کیونکہ اس سے اس سردار پر ایک عجیب اثر پیدا ہوتاہے اس کی لڑکی قریب المرگ تھی اور اس کاایک ایک دم باپ کے لئے غنیمت تھا پس وہ چاہتا تھا کہ مسیح جلد جائیں اور اس کی لڑکی کو شفا بخشے۔ لیکن وہ تاخیر کرتے ہیں چنانچہ آپ ٹھہر جاتے ہیں اور اپنے شاگردوں سے یہ استفسار کرتے ہیں کہ مجھے کس نے چھوا اور پھر اس عورت سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ پس ان باتوں کے سبب خاصی دیر لگ جاتی ہے یہ دیر اس سردار کے ایمان کی آزمائش تھی لیکن وہ اس آزمائش میں پورا اترتا ہے کیونکہ دیر ہورہی ہے اور وہ صبر کرتا ہے ۔ اور مسیح کےوقت کا منتظر کھڑا ہے ۔ حضرت مرقس اور حضرت لوقا سے معلوم ہوتاہے کہ جب مسیح اس عورت سے کلام کررہے تھے  اس وقت اسے لڑکی کے مرجانے کی خبر پہنچی حضرت لوقا بیان کرتے ہیں کہ فقط ایک نوکر آیا ۔ حضرت مرقس سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی لوگ اس کے پاس یہ خبر لائے۔اس بیان میں بھی اختلاف کو جگہ نہیں کیونکہ حضرت لوقا اس شخص کا ذکر کرتے ہیں جو خاص  طور پر پیغام کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا۔ اور حضرت مرقس اس کے ساتھ اور لوگوں کوبھی شامل کردیتا ہے جو آپ ہی آپ اس خاص نوکر کے ساتھ چلے آئے تھے۔ بری خبر کے پہنچانے میں لوگ خود بخود شامل ہوجاتے ہیں انہوں نے آکر اس سے کہا "تیری بیٹی مرگئی" استاد کو کیوں تکلیف دیتا ہے "(انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس 5باب آیت 35وحضرت لوقا 8باب آیت 49) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔کہ وہ اپنے خاندان کی صلاح اور رضا مندی سے آیا تھا (لینگی ) او ریہ بھی ثابت ہوتاہے کہ گو وہ یہ ایمان  تو رکھتے تھے کہ مسیح زندگی کے کمزور سے شعلہ کو بھی زو آور بنا سکتا ہے پر یہ ایمان نہیں رکھتے تھے کہ آپ میں یہ طاقت بھی ہے کہ بجھی ہوئی آگ کو پھر روشن اور زندہ کریں۔پس اب ان کی امید ینقطع ہوگئی تھی ۔ اور باپ کی امید بھی جاتی رہتی اگر جناب مسیح ہمت بخش الفاظ سے اس کی طرف مخاطب نہ ہوتے ۔ اگر اس کا ایمان بھی جاتا رہتا تو معجزہ وقوع میں نہ آتا کیونکہ ایمان شرط ہے ۔ سو مسیح نے اس کے ایمان کو سنبھالا جب آپ نے یہ تسلی  بخش الفاظ اس کے سامنے بیان فرمائے " خوف نہ کر صرف اعتقاد رکھ وہ بچ جائے گی " (انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا 8باب آیت 50) اور لکھا ہےکہ آپ نے یہ الفاظ نوکر وں کا پیغام سنتے ہی کہے۔ حضرت لوقا کہتے ہیں" مسیح نے سن  کر اسے جواب دیا " کہ خوف  نہ کر " وغیرہ صحیح ترجمہ یہ ہے "جوں ہی مسیح نے سنا " کیونکہ یونانی الفاظ پر زور ہے ۔حضرت مرقس کہتے ہیں کہ نوکروں نے جو بات کہی مسیح نے اس کی طرف کچھ توجہ نہ کی ۔ (انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس 5باب آیت 36) مطلب  یہ ہے کہ مسیح نے فوراً اس کے ایمان کو مضبوط کیا اور اس کے دل کو ڈھارس دی ۔

آیت نمبر ۲۳،۲۴اور جب مسیح سردار کے گھر میں تشریف لائے اور بانسلی بجانے والوں اور بھیڑ کو غل مچاتے دیکھا ۔ تو کہا ہٹ جاؤ کیونکہ لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے ۔ وہ آپ پر ہنسنے لگے۔

یہ بیان گویا مشرقی دستورات کی ایک عکاسی ہے ۔ مرنے والے کی چارپائی کے ار دگرد اس کے رشتہ دار اور احباب جمع ہیں۔ اور جونہی روح بدن سے جدا ہوتی ہے یونہی  آہ بکا کا شور اور گریہ زاری کا غل شروع ہوجاتاہے ۔اس اظہار غم میں مدد دینے کے لئے بعض بعض عورتیں اجرت پر بلائی جاتی ہیں اور بعض صاحب توفیق گویوں کو بھی بلاتے ہیں جو دل سوز مرثیہ  گاتے ہیں۔ (کتاب مقدس حضرت یرمیاہ کا صحیفہ 9باب 17آیت ،16باب 6آیت ،صحیفہ حضرت حزقی ایل  24باب 17آیت ،حضرت عاموس 5باب 16آیت ،2تورایخ 35باب آیت 25) سیاحوں نے آج کل بھی اس قسم کے دستورات کو مصر اور فلسطین میں مروج پایا ہے ۔

پس بانسلی بجانے والے اور غل مچانے والے وہ لوگ تھے جو اجرت لے کر ماتم اور غم کی رسومات کو ادا کیا کرتے تھے (پنجابی سیاپا اور جاجک اس کی نظیر میں ہیں ) مسیح نے ان کو کہا ہٹ جاؤ اس لئے کہ اس موقع پر ان کی ضرورت نہ تھی ۔ وہ آگے چل کر افتاح کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ (انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس 7باب آیت 34) جب آپ نے یہ لفظ کہا تو اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اٹھی ۔ حضرت مرقس میں یہ ہے کہ چلنے پھرنے لگی ( انجیل شر یف بہ مطابق حضرت مرقس 5باب آیت 42) مسیح نے حکم دیا کہ اسے کھانے کو دو ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا 8باب آیت 55)یہ حکم اس لئے دیا کہ اس کی طاقت بڑھے ۔ اور کوئی اشتباہ اس قسم کا نہ رہے کہ وہ زندہ نہیں ہوئی کو ئی نہ سمجھے کہ وہ روح ہے ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا 24باب آیت 41وحضرت یوحنا 21باب آیت 5،اعمالراسل 10باب آیت 41) زندگی کے مالک مسیح ہیں اور زندگی آپ سے آتی ہے مگر فضل کے وسائل اس زندگی کو مضبوط کرتے ہیں ۔ حضرت لوقا میں یہ حکم بھی  ہے کہ یہ ماجرا کسی سے بیان نہ کیا جائے ۔

آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔ مردہ لاش کو چھونا ،کوڑھی کو چھونے یا خون والی عورت کو ہاتھ لگانے کی مانند شریعت کے رو سے اعلی ٰ درجہ کی ناپاکی کا باعث سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن مسیح بجائے اس کہ ان کو چھو کر ناپاک ہوں ان کو پاک کرتے ہیں۔

دیکھو خون بہتی ہوئی عورت سے ظاہری اقرار طلب کیا گیا ۔ مگر جائیرس کو تاکید کی گئی کہ کسی سے معجزے کا ذکر نہ کرے۔پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس معجزے کا بالکل بیان نہ کیا جائے بلکہ یہ کی فو الفور ہر کس وناکس کے سامنے عام طور پر چرچا نہ کیا جائے ۔ کیونکہ اگر کیا جاتا تو ان معجزوں کے وسیلے جو علی التواترد وقوع میں آرہے تھے بڑی تحریک پیدا ہوتی۔

اس موقع پر اس بات کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کو زندہ کرنے کے معجزوں میں آنخدواند مسیح کی قدرت زیادہ ظاہر ہوئی ۔کیونکہ مردوں کو زندہ کرنا ایسا اظہار قوت اعجاز کا ہے کہ اس میں کسی طرح کاشک وشبہ نہیں رہتا۔ بیماری اور صحت میں تو ایک قسم کا نیچرل تعلق پایا جاتا ہے ۔یعنی اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بیماری کے بعص صحت آتی ہے اور طوفان کے بعد امن کی حالت نمودار ہوتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اگر جناب مسیح اپنے معجزے سے طوفان کو بند نہ کرتے تو فطرت خود بخود کچھ عرصہ کے بعد اس کو تھمادیتی ۔ لیکن موت اور زندگی نیستی اور ہستی میں کوئی ایسا نیچرل رشتہ نہیں پایا جاتا ۔پس مردوں سے زندہ کرنا ایسا کام تھا جو اور معجزوں کی نسبت زیادہ نیچر کے انتظام سے برتر تھا اور یہی سبب ہے کہ ان معجزوں پر دشمنوں نے زیادہ حملے کئے ہیں۔

دوسری بات یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ مردوں میں سے زندہ کرنے کے سب معجزے ایک ہی قسم کے نہ تھے بلکہ طرح طرح کے تھے۔ اور ان سے مسیح کی قدرت کے مختلف درجے ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلاً جس وقت یہ معجزہ سرزد ہوا اس وقت روح تن سے ابھی جدا ہوئی تھی جب بیوہ کا لڑکا زندہ کیا گیا اس وقت روح کو بدن سے پرواز کئے زیادہ وقت گزرگیا تھا۔ اور جب لعاذر زندہ  کیا گیا اس وقت چار دن گزر گئے تھے۔ مسیح موت کے ہر درجہ میں ہم کو جلا سکتے ہیں۔

نصیحتیں اور مفید اشارے

1۔جائیرس اور بیمار عورت کے ایمان کا مقابلہ بڑا نصیحت خیز سبق ہے ۔ جائیرس بڑی دلیری سے آتا ہے اور بظاہر اس کا ایمان بڑا مضبوط معلوم ہوتا ہے ۔ مگر درحقیقت کمزور عورت ڈرتی ہوئی آتی ہے۔ مگر اس کا ایمان بہت مضبوط ہے ۔ کلیسیا میں بہت لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جن کا ایمان یا توجائیرس کے ایمان کی مانند یا اس بیمار عورت کے ایمان کی مانند ہوتا ہے۔

2۔ان دونوں معجزوں کا ذکر ایک ہی بیان میں منسلک ہے ان معجزوں کی صداقت پر دال ہے کیونکہ کوئی فریبی ان معجزوں کو اس طرح آپس میں نہ ملاتا۔

3۔لعاذر کے جلائے جانے کے ساتھ مقابلہ ۔ مسیح اس موقعہ پر بھی یعنی لعاذر کی بیماری کے وقت  بھی مدد پہنچانے میں دیر کرتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں موت کو آنے کی مہلت دیتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں موت کو نیند سےتشبیہ دیتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ پہلی تین اناجیل کامسیح حضرت یوحنا کی انجیل کے مسیح سے مختلف نہیں ہے۔

4۔غمزدہ باپ کے لئے مسیح سب پناہ گاہوں سے بڑی اور محفوظ پنا ہ گا ہے ۔

5۔مسیح ایمان کی کاملیت کو نہیں بلکہ اس کی سچائی کو دیکھتے ہیں۔

6۔خوف مت کھا صرف اعتقاد رکھ۔ یہ بات جو اس سے مطلب کی جاتی ہے (1) حیرت انگیز ہے کیونکہ لڑکی مرچکی ہے تاہم مسیح کہتے ہیں خوف مت کھا۔ (2) مگر واجب ہے (3) ممکن ہے ۔ (4) فائدہ بخش ہے۔

7۔پانچ اور باتیں سیکھتے ہیں۔ (1)منت کرنے والا  کا ایمان قبول کیا جاتا ہے ۔ (2)سرگرم ایمان کی آزمائش کی جاتی ہے ۔ (3)کمزور ایمان کی تقویت کی جاتی ہے ۔ (4)محکم ایمان پر کامیابی کا تاج رکھا جاتا ہے ۔ (5)شکر گزارایمان کامل کیا جاتاہےاور ان سب برکتوں کا بانی مسیح ہے ۔

8۔سونا، موت کا نمونہ ہے (1)پہلے تکان آتی ہے (2)پھر آرام آتا ہے ۔(3)پھر بیداری آتی ہے ۔جس طرح مسیح جسمانی موت سے زندہ کرتے ہیں اسی طرح وہ روحانی موت سے زندہ اور غفلت کی نیند سے بیدار کرتا ہے۔

9۔مسیح زندوں اور مردوں کا بادشاہ ہے۔

10۔لوگ مسیح اور ان کے شاگردوں پر ہنسی کرتے ہیں۔ لیکن ان کی ہنسی مسیحیوں کو اچھے کاموں سے نہ روکے ۔ دیکھو یہاں لوگوں کی ہنسی سے مسیح زندہ کرنے کے اچھے کام سے نہ رکے۔

11۔ان مصیبت زدوں کی حالت سے پولس تعلیم کی صداقت ظاہر ہوتی ہے (انجیل شریف خطِ اہل رومیوں 5باب 3آیت )

12۔دیکھو مسیح کی رزاقی کوئی بات نہیں بھولتی خواہ وہ کیسی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ آپ نے اس لڑکی کو زندہ کرنے کے بعد اس بات کو بھی یاد رکھا کہ اسے کھانے کی ضرورت ہوگی ۔ مسیح نہ صرف بڑے بڑے کام وفرائض ادا کرتے ہیں بلکہ چھوٹے کاموں کو بھی نہیں بھولتے ۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, معجزات المسیح | Tags: | Comments (0) | View Count: (16902)
Comment function is not open
English Blog