en-USur-PK
  |  
05

دلدل

posted on
دلدل
                                   Quicksand

دلدل

صحرا میں بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں ریت پانی سے ملی ہوتی ہے۔ یہ جگہیں بھولے بھٹکے مسافر وں کے لئے بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان پر چلنے والا دھنس جاتا ہے۔ نیچے بیان کی ہوئی کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ پہلے تو مسافر آگے بڑھنے میں رکاوٹ محسوس کرتا ہے اور اس کے قدم بھاری ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ریت اس کے جوتوں کے تلوں سے چپک جاتی ہے اور گوند کی طرح ان سے لگ جاتی ہے ،ریت سوکھی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جونہی وہ اپنا پاؤں اس پر سے اٹھاتاہے وہ جگہ پانی سے بھر جاتی ہے ۔ ریت بڑی نفیس ،ملائم اور ایک رنگ کی ہوتی ہے ۔ اس لئے کسی کو بھی سوکھی ریت جوچلنے کے لئے محفوظ ہوتی ہے ،اور گیلی ریت میں جو محفوظ نہیں ہوتی فرق دکھائی نہیں دیتا۔

جب مسافر کو ایسا لگتا ہے کہ اس کا پاؤں ریت میں دھنسا جارہا ہے تو وہ چاروں طرف اس امید سے دیکھتا ہے کہ شاید وہ سوکھی زمین کی طرف واپس جاسکے ۔ لیکن اس کی بجائے جتنا وہ اپنے پاؤں باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی وہ اور نیچے دھسنے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ریت میں چھپ جاتے ہیں ۔ تب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ راستے سے بھٹک گیا ہے اور وہ پریشانی کی حالت میں اسی جگہ کھڑا رہ جاتا ہے ۔کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اب کیا کرے اور اس کے پاؤں آہستہ آہستہ نیچے ہی نیچے دھنسے چلے جاتے ہیں۔

تب وہ چاہتا ہے کہ جس راہ سے وہ آیا تھا اسی پر واپس لوٹ جائے اور بچ جائے ۔لیکن وہ واپس نہیں جاسکتا اور اس کی حالت او ربھی بری ہوجاتی ہے اور رہائی اوروہ بھی مشکل دکھائی دینے لگتی ہے ۔ تب ریت اس کی ایڑیوں کو چھپا لیتی ہے اور وہ دائیں طرف مڑتا ہے لیکن اور بھی نیچے دھنس جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے ٹخنے بھی ریت میں چھپ جاتے ہیں ۔پھر وہ بائیں کی طرف مڑتا ہے اور ریت اس کے گھٹنوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ تب اسے یقین ہوجاتاہے کہ وہ ڈوب جانے والا ہے ۔

اگر وہ کچھ اٹھائے ہوئے ہوتا ہے تو اسے دور پھینک دیتا ہے تاکہ اس کا بوجھ ہلکا ہوجائے لیکن بات پھر بھی نہیں بنتی وہ مدد کے لئے پکارتا ہے او راپنے خطرے کی علامت کے طور پر اپنا رومال ہلاتاہے۔ لیکن مدد نہیں پہنچتی اور ریت اس پر غالب آجاتی ہے ۔ جب تک اتفاق خدا ئی مدد نہ پہنچے اور کوئی طاقتور اور بہادر آدمی جو اس قسم کی زمین کو پہنچاتا ہو آکر اسے ریت سے باہر نہ نکال لے تو وہ بلاشک غرق ہوجائے گا۔ کیونکہ ریت اونچی ہوتی جائے گی اور اس کا سارا بدن چھپ جائے گا۔

اسے کہیں دور درخت ،گھر اور باغ دکھائی دیتے ہیں لیکن ان تک جانے کاراستہ نہیں ملتا ۔ اسے سورج کی روشنی میں چمکتا ہواآسمان اپنے سر پر دکھائی دیتا ہے لیکن وہ ان پیاری چیزوں کو دیکھ کر افسوس کرتا ہے ۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ چند منٹوں میں ڈوبنے والا ہے اور یہ سب کچھ اسے پیچھے چھوڑنا پڑے گا۔

تب وہ اس خیال سے ریت پر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید یوں زیادہ نیچے جانے سے بچ جائے ۔ پس وہ بیٹھ جاتا ہے او رپھر اپنی پیٹھ کے سہارے یا منہ کے بل لیٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں اس کی مشکلوں اور مصیبتوں کو بڑھادیتی ہیں۔ تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ ریت کے سینے تک پہنچ گئی ہے اور وہ جتنی بلند آواز سے چلا سکتا ہے چلاتا ہے ۔

"کوئی میری مدد کرے ،میں ڈوب رہا ہوں "

وہ اپنی کہنی کے سہارے جھکتا ہے کہ کہیں ڈو ب نہ جائے ۔لیکن ریت اس کے کندھوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر گردن تک ۔ صرف اس کا چہرہ ریت سے باہررہ جاتا ہے۔ وہ چلانے کے لئے اپنا منہ کھولتا ہے اور ریت اس کے منہ میں گھس جاتی ہے ۔تب وہ چلا بھی نہیں سکتا ۔ اب وہ صرف اپنی آنکھوں سے موت کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ اگر چہ وہ مضبوط اور تندرست ہے لیکن کوئی چال اسے نہیں بچاسکتی ۔ تب ریت اس کی آنکھوں میں گھس جاتی ہے اور اس کی پلکیں اور اس کا سر ریت میں چھپ جاتے ہیں۔ اس کے ہاتھ اوپر اٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے وہ مدد کی بھیک مانگ رہا ہو۔ آخر کار وہ ریت میں پوری طرح چھپ کر نظر سے غائب ہوجاتاہے ۔

کہانی کا مطلب

یہ کہانی ایک مثل ہے جو آپ پر صادق آتی ہے کیونکہ آپ بالکل اس ریت میں دھنس جانے والے آدمی کی طرح ہیں جب حضرت آدم  نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور شجر ممنوعہ کا پھل کھایا،تب ہی سے اس کی تمام نسل بدی اور نافرمانی کی طرف مائل ہوتی آئی ہے۔ جیسا کہ زبور شریف میں لکھا ہے ۔

"وہ سب کے سب پھر گئے ہیں ،وہ باہم نجس ہوگئے کیوئی نیکو کار نہیں،ایک بھی نہیں،(زبور شریف 53باب  3آیت )۔

گناہ اس ریت کی طرح ہے اور آپ اس میں آہستہ  آہستہ ڈوبے جارہے ہیں کیونکہ آپ کو اس کا پتہ نہیں ۔شیطان آپ کو ورغلاتا ہے کہ آپ کا راستہ محفوظ اور خطروں سے الگ ہے۔ وہ آپ کو صاف آسمان اور اچھے موسم کا فریب دیتا ہے۔ کوئی چیز آپ کو خطرے سے آگاہ نہیں کرتی اس لئے آپ اس کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔ آپ اپنے فرضی سکون کے فریب میں مبتلا ہوکر دن بہ دن گناہ کرتے جاتے ہیں۔ آپ اپنی اصل حالت سے اور بھی بے خبر ہوکر گندی عادتوں میں قائم ہوتے جاتے ہیں۔ آپ کی دولت چاپلوسی اور لذت کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ نفسانی خیالات آپ کو اچھے لگتے ہیں اور آ پ کی خودپسندی کم نہیں ہوتی  ۔ آپ کی آرزو اور وقتی ہوشیاری کے باوجود بھی آپ کے گناہ آپ پر غلبہ پالیتے ہیں او ربالکل اس ڈوبنے والے کی طرح جو اپنے آپ کو باہر نکال نہ سکا آپ بھی اپنی روح کو گناہ کی ریت کے ڈھیر سے باہر نہیں نکال سکتے ۔

ممکن ہے کہ آپ نے اپنے گناہوں سے آزاد ہونے کے لئے ہر ایک وسیلے سے کام لیاہو۔ لیکن ناکام رہے ہوں اور آپ کے دن گناہ کی طاقتوں کے خلاف بے کار کوششوں اور بے بسی میں گذرگئے ہوں۔ اے عزیز  پڑھنے والے اگر آپ کی حالت ویسی ہے جیسی ہم نے بیان کی تو آپ ایک بڑے خطرے میں ہیں۔ کتاب مقدس کہتی ہے ۔

"ایسی راہ بھی ہے جو انسان کو سیدھی معلوم ہوتی ہے پر اس کی انتہا میں موت کی راہیں ہیں"۔

آپ اسی راستہ پر چل رہے ہیں۔ خدا نے آپ کے گناہوں کی سزا مقرر کردی ہے وہ انجیل شریف میں ظاہر کرتا ہے۔

"گناہ کی مزدوری موت ہے ۔ ۔۔۔(انجیل شریف خط اہل رومیوں 6باب  23آیت )۔

ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے کہ یہ مزدوری ٹھیک اور مناسب ہے ۔کیونکہ ہمارے تمام گناہ خدا کے یعنی اس قدوس کے خلاف ہیں جس نے بارہا ہمیں پاکیزگی کی طرف بلایا ہے ۔

اب فرض کیجئے کہ جب وہ آدمی ڈوبنے لگا تب ایک بہادر آدمی نے اس کے پاس آکر اسے ڈوبنے  سے بچالیا اور حفاظت کے ساتھ اس کے گھر پہنچا دیا تو وہ کس قد ر خوش ہوا ہوگا جیسے وہ نئے سرے سے پیدا ہواہو یا مرگیا ہو اور دوبارہ زندہ ہوکر اٹھاہو۔ ہا ں ایک ایسا بچانے والا ہے ۔ اس بہادر آدمی سے مراد جناب سیدنامسیح ہیں۔ جیسے کہ ڈوبنے والے سے مراد آپ ہیں وہ آپ کو پوری طرح بچا سکتا ہے اور سلامتی کے ساتھ آپ کو آسمانی گھر میں لے جاسکتا ہے کیونکہ وہ آسمان سے ہماری اس گناہ سے بھری ہوئی دنیا میں آیاتاکہ بدبخت گنہگاروں کو بچائے اور انہیں خوفناک دلدل سے باہر نکالے۔

اگر آپ گناہ کی زندگی سے خوفزدہ ہیں اور اس کی سزا سے ڈرتے ہیں ( کون ہے جو نہیں ڈرتا ؟) جلدی سے جناب مسیح کے پا س آئیے کیونکہ وہ خدا کی طر ف سے مقرر کئے ہوئے  ہیں بچانے والے ہیں ۔ کتاب مقدس کہتی ہے۔

"کسی دوسر ے کے وسیلے سے نجات نہیں ۔"

اس کی محبت کو نہ ٹھکرائیے کیونکہ لکھا ہے ۔

"اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیونکر بچ سکتے ہیں۔ "

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (22344)
Comment function is not open
English Blog