en-USur-PK
  |  
16

تجسد کے وقت کا تعین

posted on
تجسد کے وقت کا تعین

The Time of Incarnation

تجسد کے وقت کا تعین

Allama Paul Ernest

خدا نے اپنے بیٹے کے تجسد کا وقت یا زمانہ بڑی احتیاط سے مقرر کیا۔ تجسد کے لئے وہ زما نہ مقرر کیا جو اس کے لئے موزوں ترین تھا ۔ جب ہم یہ سمجھ لیں کہ خد انے دنیا کے شروع میں متسجد ہونے یا اس کے آخر میں متجسد ہونے کی دونوں انتہاؤں کو کیوں رد کیا تو ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کا اقنوم ثانی جس زمانہ میں متجسد ہوا وہی زمانہ متجسد الہٰی کے لئے موزوں ترین زمانہ تھا۔

جس غرض کیلئے خدا نے تجسد کو مقرر فرمایا تھا اس کے لحاظ سے وقوع ِ تجسد دنیا کے شروع میں انسانوں کے گناہ کرنے سے پہلے نہیں ہوسکتا تھا۔ کیونکہ اس وقت ایسی حالت تھی جس کی بابت مسیح نے صاف صاف فرمایا ہے کہ میں اس کی خاطرنہیں آیا،  ’’ تندرستوں کو طیبب کی حاجت نہیں بلکہ بیماروں کو ہے۔ میں راستبازوں  کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے کے لئے آیا ہوں۔ ‘‘  ( متی ۹:۱۲۔ ۱۳)

گناہ کے ارتکاب کے فوراً بعد بھی تجسد کا وقوع میں آنا مناسب نہ ہوتا کیونکہ اس وقت انسان کو گناہ کے نتائج ِ بد سے پوری واقفیت نہ ہوتی اور اس کو یہ احساس نہ ہوتا کہ ہم کو گناہ اور اس کے نتائج سے نجات پانے اور بچنے کے لئے بچانے والے کی سخت ضرورت ہے۔ اور کہ ہم اپنے آپ کو خود نہیں بچاسکتے۔ اب اس طویل زمانہ کے تجربہ سے انسان پر روشن ہوگیا ہے کہ ہم گناہ سے بچ نہیں سکتے۔ اور نہ اپنے آپ کو اپنے خود کردہ گناہوں سے چھڑا سکتے ہیں  لہٰذا ہمیں کسی اور کی سخت ضرورت ہے ۔ جو ہمیں گناہوں کے ارتکاب سے بچائے اور کئے ہوئے گناہوں سے چھڑائے۔

اگر مسیح نوعِ انسانی کے جاری ہوتے ہی آجاتا خواہ ارتکاب ِگناہ کے بعد ہی آتا تو اس کی آمد بہت یقینی نہ ہوتی اور بہت یقینی نہ رہتی کیونکہ وہ زمانہ قبل از تاریخ تھا اب جبکہ مسیح کمال درجہ کے تاریخی زمانہ میں ہوا ہے پھر بھی بعض سر پھروں نے اس کی ہستی اور آمد کو موہوم قرار دیا ہے اور  یہ کہہ گزرے ہیں کہ Christ is a myth مسیح تو ایک موہوم ہستی ہے تو اگر وہ دنیا کے شروع میں تاریخی زمانہ سے پہلے آتا تو پھر اس کا یقین کیسے ہوتا ؟  جیسا کامل یقین اور کامل ثبوت مسیح کو ماننے کے لئے درکار ہے وہ اس کے دنیا کے شروع میں آنے سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا  اس کا دنیا کے شروع میں آنا غیرموزوں اور غیر مناسب تھا۔ خدا کی حکمت نے اسے دنیا کے شروع میں بھیجنے کیوقت کو رد کیا اور اسے غیر موزوں اور غیر مناسب سمجھا۔ علاوہ اس کے مسیح کی آمد تک کے طویل عرصے میں یہ خوب روشن ہوگیا کہ خدا کی خاص امداد کے بغیر انسان اپنی قوت سے کیا بن سکتا ہے۔ آدم کے گرنے کے بعد انسان زیادہ زیادہ گناہ اور کفر میں ڈوبتے گئے نہایت ہولناک اور گھناؤنی بدیوں میں پڑتے گئے اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور نہ کوئی صورت تھی ہی پس اس طویل عرصے نے یہ ظاہر کردیا کہ اگر انسان کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا جائے تو وہ کیا بن جاتا ہے ۔ اور جو کچھ وہ بن جاتا ہے وہ اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ اسے کسی بچانے والے اور چھڑانے والے کی سخت ضرورت ہے پس اس حقیقت کا جاننا انسان کو حلیم اور فروتن بنانے میں مْمِدّ ثابت ہوتا ہے۔ اپنی ناچاقی کے تلخ تجربہ سے انسان نے اپنے غرور کی حماقت کو خوب پہچان لیا ہے اور اسے معلوم ہوگیا کہ مجھے کیسی سخت ضرورت ہے کہ خدا مجھے میری بدی اور کمزوری اور ناچاری سے بچائے۔ فروتنی کے سبق کو امٹ اور نافراموش اور نہ بھلایا جاسکنے والا بنانے کے لئے اس سبق کو طویل ہونا چاہئے تھا یعنی انسان کو اپنی بیچارگی اپنی کمزوری اور اپنی بدی کا تجربہ عرصہ ء طویل کے لئے ہونا چاہئے تھا اور خدا کی حکمت نے یہی کیا۔

متجسد کلمہ کی لا محدود شان اور بے حد بلند رتبہ کے باعث چاہئے تھا کہ اس کی آمد کی تیاری کا بندوبست اور انتظام طویل ہوتا۔ اور بڑی خبرداری اور احتیاط سے کیا جاتا۔ اپنی برگزیدہ قوم میں خدا کو لگاتار انبیاء بھیجتے رہنا چاہئے تھا تاب اور صرف تب جبکہ وقت پورا ہو جاتا تو خدا اپنے بیٹے کو بھیجتا جو عورت سے پیدا ہوتا شریعت کے ماتحت پیدا ہوتا تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لیکر چھڑاسکتا۔ پس ہم کو لے پالک ہونیکا درجہ مل سکتا ہے پس دنیا کے شروع میں تجسد کے نہ ہونے کا ایک باعث یہ ہے کہ انسان کو گناہ  اور  اس کے نتائج بد اور اپنی کمزوری اور بیچارگی کا تلخ تجربہ نہ ہوتا اور دوسرے اس بات کا خطرہ نہ ہوتا کہ بعد کی طویل انسانی تاریخ میں یہ واقعہ ٓ  تجسد انسانوں کی یاد میں دھندلا پڑجائے یا ان کی یاد سے مٹ جائے اور یوں خدا انسان یعنی متجسد خدا پر آدمیوں کے ایمان کی آب و تاب ۔ شگفتگی اور صراحت خطرے میں پڑ جائے۔

دنیا کے آخر میں تجسد کے وقوع کی غیر موزونیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ گناہ  وہ نشانہ تھا جسے تجسد کو برباد کرنا تھا ۔ متجسد خدا کو اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے آنا تھا۔ گناہ سے بچانا صرف ارتکاب کردہ گناہوں کی معافی دینا ہی نہیں بلکہ ارتکابِ گناہ سے بچانا بھی ہے۔ اسے دنیا میں سے گناہ، کفر اور جہالت اور ہر طرح کی خامی اور ہر طرح کے نقص کو دور کرنا تھا اس لئے یہ دنیا کے آخر میں نہیں ہوسکتا تھا۔ گناہ ، کفر اور جہالت میں پھنسے ہوئے انسان کو گناہ سے چھڑا کر نیک بنانا۔ خدا کا دوست اور فرزند بنانا۔ مومن بنانا اور اسے علم ِ الہٰی بخشنا تھا۔ تجسد صرف اسی لئے نہیں تھا کہ انسان کے گناہ بخش دیئے جائیں بلکہ اس لئے بھی تھا کہ اسے خدا کی اخلاقی صورت پر لایا جائے اسے حقیقی علم بخشا جائے۔ اور اسے ایمان بخشا جائے اسے خدا کا دوست اور اس کا فرزند بنایا جائے اس سب کچھ کو سرانجام دینے اور حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے تجسد کو دنیا کے خاتمہ سے بہت پہلے وقوع میں آنا چاہئے تھا جبکہ نسل ِ انسانی جاری ہو اور تجسد کے بعد مدتوں جاری رہے تا کہ اہل زمین اس کے فوائد اور اس کی نعمااور برکات سے بیشمار زمانوں تک مالا مال ہوتے رہیں پس تجسد کے وقوع کا وقت دنیا کا آخر نہایت موزوں ہوتا ۔ تجسد کے وقوع کے وقت کے تقرر کے لئے گناہ جس کو دور کرنے کے لئے اسے وقوع میں آنا تھا اور انسان کی بحالی کے وسائل کو بھی مدنظر رکھنا تھا اور ان کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہی تجسد کا موزوں وقت مقرر کیا جاسکتا تھا۔

تجسد کے وقوع کا وقت بوجہ  احسن کامل ہونا چاہئے تھا اگر یہ بہت ہی جلدی واقع ہوتا تو انسان بگڑ ا ہوا اور خود مطمئن ہوتا ۔ خوف کافی ہوتا۔ اپنے آپ میں مطمئن ہوتااور اپنے آپ کو کافی سمجھتا جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے اس صور ت میں اس پر اپنے گنہگار ہونے کی بیحد کمزوری اور بے بسی بخوبی ظاہر نہ ہوتی اور یوں وہ اپنے آپ ہی کو کافی سمجھتا حالانکہ اس کی عمدگی اور خوبی تجسد کے باعث ہوتی اور اگر یہ واقعہ تجسد بہت ہی دیر بعد ہوتا تو انسان برباد ہو جاتا، واقعہ تجسد دنیا کے آخر تک روکا نہیں جاسکتا تھا۔ اسے دنیا کے آخر تک روکنا موزوں نہیں تھا۔ انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کچھ بھی موجود نہیں تھا ۔ انسان میں مایوس کن بیچارگی ، ناچاری اور بے بسی پائی جاتی تھی۔ شرعِ قدیم کے مکاشفہ کی بھی غیر اقوام میں تحقیر کی گئی اور یہودیوں میں بیوفائی پائی گئی۔ انسان کی تاریخ سے کثیر شہادت حاصل ہوتی ہے کہ جب انسان کو اس کے اپنے سرو سامان اور اس کی اپنی حکمت پر چھوڑ دیا جائے تو خدا کے بارے میں اس کا علم اور اس کی عزت متواتر زوال پذیر ہوتے ہیں یعنی خدا کے بارے میں اس کا علم گھٹتا جاتا ہے  اور خدا کی جو عزت اس کے دل میں ہوتی ہے اس میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے اور وہ گھٹتی جاتی ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے توں توں اخلاق کے ساتھ اس کا تعلق گھٹتا اور کم ہوتا جاتا ہے ۔

اگر خدا کی آمد دنیا کے آخر پر ملتوی کردی جاتی تو انسان کا خدا اور اخلاق کے ساتھ تعلق مٹنے کے نقطہ کے قریب پہنچ جاتا پس انسان کو پوری پوری امداد دینے کے لئے وقت کے عین پورا ہونے پر خدا انسان بنا تاکہ انسان کو اس کے گناہ سے بچائے۔ تجسد اپنی تفاصیل اور ماہیت میں الہٰی اور انسانی نقطہء نگاہ سے نہایت موزوں اور فی الحقیقت الہٰی کام ہے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (1) | View Count: (21021)

Comments

  • I am Nadeem from Muslim. I read the Bible and Quran study. Jesus Christ is beautiful life. Jesus Christ is my Savior.
    17/12/2018 7:22:22 AM Reply
Comment function is not open
English Blog