Israel’s God is merciful
Muhammad’s is not
اِسرائیل کا خدُا رحیم ہے محمد کا نہیں
’’اور داؤد نے سلیمان سے کہا اے میرے بیٹے میں جو ہوں سو میرے دل میں تھا کہ خداوند اپنے خدا کے نام کے لئے ایک گھر بناؤں۔ لیکن خداوند کاکلام اس مضمون کا مجھ پر اُترا کہ تو نے بہت سے خونریزی کی اور بڑی لڑائیاں لڑیں تجھے میرے نام کے لئے گھر بنانا ہو گا کیونکہ تو نے زمین پر میرے آگے بہت لُہو بہایا ہے۔ دیکھ تجھ سے ایک بیٹا پیدا ہو گا۔ وہ صاحب صُلح ہو گا۔ اور میں اُسے اُس کی چاروں طرف کے سارے دشمنوں سے صُلح دونگا۔ کہ سلیمان اُس کا نام ہوگا اور امان اور آرام میں اُس کے دنِوں میں اسرائیل کو بخشونگا۔ وہی میرے نام کے لئے گھر بناویگا۔ وہ میرا بیٹا ہو گا اور میں اُس کا باپ ہونگا۔ اور میں اسرائیل پر اُس کی سلطنت کا تخت ابدتک ثابت رکھونگا[1]‘‘۔ 1۔تواریخ 22باب 7سے 10آیت۔
وہ رحیم خدُا۔ جس نے داؤد کو اجازت دی کہ اُس کے نام کے لئے زمین پر پتھر اور لکڑی کا ایک گھر بنائے۔ کیونکہ داؤد نے خدُا کے دشمن کافر فلسطیوں کے خون کئے تھے۔ وہ رحیم خدا۔ جس نے یوناہ نبی کو کہا تھا ’’ کیا مجھے لازم نہ تھا کہ میں اتنے بڑے شہر نینوہ پر جس میں ایک لاکھ بیس ہزار آدمیوں سے زیادہ ہیں جواپنے دہنے بائیں ہاتھ کے درمیان امتیاز نہیں کر سکتے اور مویشی بھی بہت ہیں شفقت نہ کروں‘‘ یوناہ ۴ باب ۱۱ آیت۔ جبکہ یوناہ نبی چاہتا تھا کہ نینوہ کے لوگ خدا کے غضب سے برباد ہو جاویں۔ وہ رحیم خدا ہے۔ جس نے شرط مقرر کی تھی ۔ کہ اُس کے پاک نام کے لئے گھر وہی شخص بنائیگا جو صاحب صُلح ہو گا۔ وہ رحیم خُدا کیونکر اپنی رحمت کے برخلاف محمد صاحب اور محمدیوں کو حکم دے سکتا تھا کہ میرے نام کے لئے مکّہ میں ایک خانہ کعبہ بناؤ جس حال میں کہ اُنہوں نے روئے زمین پر آدمیوں کے خون کےدریا بہا دیئے۔ اور نہ محمد صاحب نہ عمر نہ علی نہ حسن حسین اور نہ دیگر محمدی صاحبان صاحب صلح ہوئے۔
جب میں نے یہ بات ایک مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کی تو اُنہوں نے جواب دیا کہ گنہگار کو سزا دینا ظلم نہیں انصاف ہے اگر محمد صاحب اور مسلمانوں نے کافروں کو مارا اور اُن کامال لوٹ لیا تو یہ کچھ بیجا نہیں کیا خدا کے عدل کو پورا کیا ۔ میں نے عرض کی جناب جب کسی رحیم بادشاہ نے اپنی رعّیت کے ساتھ محبے کرنی ہوتی ہے تو بھوکھوں کو روٹی اور ننگوں کو کپڑا اور یتیموں اور بیواؤں کی خدمت اپنے بیٹے کے ہاتھ سے کرواتا ہے لیکن جب کسی مجرم کو سزا دلوانی ہوتی یا پھانسی دلانا ہوتا ہے تو چوڑھے جلاو کے ہاتھ سے دلواتا ہے۔ اب آپ ہی انصاف فرمائے کہ بیوائیں اور یتیم غریب مسکین۔ بادشاہ کے بیٹے کو کس نظر سے دیکھیں گے۔ اور مجرم لوگ جلاو کو کس نظر سے۔
قرآن کی ان آیات نے۔ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا۔جہاں پاؤ انہیں پکڑو اور قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنے دوست اور مددگار نہ بناؤ۔ اور وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ۔ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے اور الله کا دین قائم ہو جائے۔ ( البقر رکوع ۲۴) محمد صاحب اور مسلمانوں سے بہت ہی بہت سخت ظلم غیر دین والوں پر کروائے ہیں۔ ممکن نہیں کہ جن کے عزیز رشتہ داروں کی گردنیں اُن کی آنکھوں کی سامنے کاٹی گئیں۔ اور جن کے گھر بار لوٹے گئے اور اُن سے جبراً کلمۂ محمدی پڑھوایا گیا۔ کسی طرح سے محمد اور اُس کے خدا کی طرف محبت کی آنکھوں سے دیکھ سکیں یا کعبہ میں جا کر صدق دل سے محمد ساحب کے خدا سے اپنی بھلائی کے واسطے کوئی دعا مانگ سکیں۔ ایسوں سے محمد صاحب کے خدُا کی شکایت بالکل بجا ہے۔
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا ۔ منافق الله کو فریب دیتے ہیں اور وہی ان کو فریب دے گا اور جب وہ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو سست بن کر کھڑے ہوتے ہیں لوگو ں کو دکھا تے ہیں اور الله کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔ کفر اور ایمان کے درمیان ڈانوں ڈول ہیں نہ پورے اس طرف ہیں اور نہ پورے اس طرف اور جسے الله گمراہ کر دے تو اس کے واسطے ہرگزکہیں راہ نہ پائے گا۔ ( لنساء ۲۱ رکوع)
’’ خدُا نے جہان کو ایسا پیار کیا ہے کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لاے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ کیونکہ خدا نے اپنے بیٹے کو جہان میں اِس لئے نہیں بھیجا کہ جہان پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ جہان اُس کے سبب نجات پاوے‘‘ ( یوحنا کی انجیل ۳ باب ۱۶، ۱۷ آیت) ’’ خداوند کی روح مجھپر ہے اُس نئ اِس لئے مجھے مسح کیا کہ غریبوں کو خوشخبری دوں۔ مجھکو بھیجا کہ ٹوٹے دلوں کو درست کروں۔ قیدیوں کوچھوٹنے اور اندھوں کو دیکھنے کی خبر سناؤں۔ اور جو بیڑیوں سے گھایل ہیں اُنہیں چھڑُاؤں اور خداوند کے سال مقبول کی مُنادی کروں۔ ‘‘ ( لوقا ۴ باب ۱۸، ۱۹ آیت )
’’یسوع نے جواب دیا کہ میری بادشاہت اس جہان کی نہیں اگر میری بادشاہت اس جہان کی ہوتی تو میرے نوکر لڑائی کرتے‘‘ ۔ ( یوحنا ۱۸ باب ۲۶ آیت) ۔
’’ تب یسوع نے اُس سے کہا اپنی تلوار میان میں کر کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں تلوار ہی سے مارے جائینگے‘‘ (متی ۲۶ باب ۵۲ آیت)۔
میرے پیارے مسلم بھائیو ہم آپکی منّت کرتے ہیں کہ اِس دنُیا کے بادشاہ محمد کی پیروی چھوڑ دو اور تلوار کو توڑ کر دور پھینکو۔ اور آسمان کے بادشاہ صَلح اور سلامتی کے مالک مسیح کے پاس آؤ۔ سُنو وہ کیس میٹھی آواز سے آپکو بلاُ رہا ہے۔ ’’ اے تم لوگو جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دونگا۔ میرا جوُا اپنے اوپر لے لو اور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم اور دل سے خاکسار ہوں تو تم اپنے جیؤن میں آرام پاؤگے۔ کیونکہ میرا جوُا ملایم اور میرا بوجھ ہلکا ہے‘‘۔ ( متی ۱۱ باب ۴۸ سے ۳۰ آیت تک) ’’ مبارل وہ جو صُلح کرنے والے ہیں کیونکہ وہ خُدا کے فرزند کہلائینگے‘‘ (متی ۵ باب ۹ آیت) ’’دیکھو کیسی محّبت باپ نے ہمسے کی کہ ہم خدا کے فرزند کہلاویں‘‘ ( ایوحنا ۳ باب آیت)۔
راقم۔۔۔۔ ب صَالح
[1] خداوند رات کے وقت سلیمان کو خواب میں دکھائی دیا اور خدا نے کہا جو تو چاہے کہ میں دوں سو مانگ سلیمان عرض کی ۔۔۔۔۔۔ اے خداوند میرے خدا تو نے اپنے بندے کو میرے باپ داؤد کی جگہ بادشاہ کیا اور میں ہنوز لڑکا ہوں اور باہر جانے اور بھتیرے آنے کا طور میں نہیں جانتا اور تیرا بندہ تیرے لوگوں کے بیچ میں ہے جنہیں تو نے چنُ لیا ہے وے لوگ بہت اور بیشمار ہیں کہ کثرت کے باعث اُن کا حساب نہیں ہو سکتا۔ سو تو اپنے بندے کو ایسا سمجھنے والا دل عنایت کر کے وہ تیرے لوگوں کی عدالت کرئے تاکہ میں نیک اور بد میں اِمتیاز کروں کہ تیری ایسی بھاری گروہ کا انصاف کون کر سکتا۔ اور یہ بات خداوند کے آگے خوش آئی۔ کہ سلیمان نے یہ چیز مانگی۔ اور اپنی عمر کی درازی نہ چاہی اور نہ اپنے لئے دولت کا سوال کیا اور نہ اپنی دشمنوں کے ما بعد ھوٹیکی درخواست کی بلکہ اپنے لئے عقل مندی مانگی تاکہ عدالت میں خبر دار رہو۔ سو دیکھ کہ میں نے تیری باتوں کےمطابق عمل کیا‘‘ ا۔ سلاطین ۳ باب ۵ آیت سے۔
محمد صاحب نے کہاں اے روئے زمین کے لوگو( مشت نمونہ خبردار) سُنو کہ میرے رحیم خدا نے میرے دشمنو کے حق میں کیا کیا فرمایا ہے۔ ولید بن مغیرہ حلاؔف جھوٹی قسمیں کھانے والا۔ہینؔ زلیل ہے ہمازؔ عیب کرنے والا ہے لوگوں کو مشاء بنیم چغل خورہے۔ متاع للخلیو منع کرنے والا ہے بھائی سے معتؔہ ظالم کرنے والا اور حد سے گزرجانا والا ہے اثیم گنہگار ہے عُتُلؔ بدر اور زشت خوہی ( گویا یہ سب باتیں ولید کو خرا ب دخوار کرنے کے واسطے کافی نہ تھیں) اور بعد ان عیبوں کے وہ دلدالزنا یعنے حرام کا کا لطفہ بھی ہے۔ ‘‘ ( سورہ نؔ اور القلم ارکوع) تَبَّت یَدٔاَ انی لہَب وَّتُّبَّ ( سورة ا للہب الخ) ٹوٹ جایں دونوں ہاتھ ابی لہب کے اور وہ آپ مر جاے۔ نہ دفع کریگا اُس سے اِس بددعا کی تاثیر کو اور اس پھٹکار کو اُس کا مال اور جو اُس نے کمائی کی ششاب داخل ہو گا آگ شعلے والی یعنے دوزخ میں۔ اور جو رو اُسکی جہنم کا ایندھن اُٹھانے والی۔اور بیچ گردن اُس کی کے پوست کھجور کی رسّی یعنے دوزُخ کا زنجیر‘‘ ابی لہب نے دونوں ہاتھ سے پتھراُٹھا کر محمد صاحب کو مارا تھا اور اُس کی بیوی محمد صاحب کے راہ میں کانٹے ڈالتی تھی۔