سب آدمی گنہگار ہیں
All Men are Sinners
September 18, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)
یہ بات خوب ثابت ہے کہ ہم سب بنی آدم جو اِس دنیا میں ہیں ضرور گنہگار اور عدالت خداوندی کے قرضدار ہیں کوئی نہیں جو اس داغ سے بیداغ ہواور صرف انسان ہو کر اُس گناہ سے جو اُسکی زات میں ہو ہر گز بری نہیں ہو سکتا کیونکہ دنیا کی قدیم اور معتبر تواریخ اگر ہم ڈھونڈتے ہیں تو سوائے توریت کے جو موسیٰ نبی کی لکھی ہو ئی ہے اور کو ئی معلوم نہیں ہوتی اور اُس سے پرانی اور کوئی تواریخ نہیں ملتی۔ ہاں یونانی عالموں میں ہیرودیٔس کی تواریخ قدیم ہے وہ حضرت ملاکی نبی کے زمانہ میں خداوند مسیح سے چار سو برس پیشتر تھا اور پس سے قدیم ہو میرسؔ اوہیسٹید شاعروں کی تصانیف قرار دی گئی ہے سو وہ بھی توریت سے قدیم نہیں کیونکہ ہومیرؔس کو حضرت یسعیا نبی کا ہم عہد بتلاتے جو سنہ عیسوی سے تخمیناً ساڑھے (۷۵۰)سات سو برس قبل گزرے۔ اور ہسیڈ کو حضرت الیاس کا ہمزمانہ ٹھہرایا ہے وہ سنہ عیسوی سے تقریباً نو سو برس (۹۰۰) پہلے ہوئے غرض توریت دنیا کی تواریخ قدیم ہے اُسمیں یوں مندرج ہے کہ خدائے تعالیٰ نے زمیں کی خاک سے آدم کو بنا کر اُسکے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور جیتی جان ہوا اور ساری دنیا کی اُسکو سرداری بخشی اور باغ عدن کی نگہبانی اور باغ بانی کے لیے سپرد کر کے حکم دیا کہ ہر ایک درخت کا پھل کھانا لیکن نیک و بد کی شناخت کے درخت سے ہر گز نکھانا جب تو کھائیگا ضرور مرجائیگا مگر شیطان نے حوأ سے جو آدم کی جورو تھی کہا کہ خدا جانتا ہے کہ تم ہر گز نہ مروگے بلکہ تمہاری آنکھیں کھل جائینگی سو ھو آنے آپ بھی کھایا اور آدم کو بھی کھلایا پس آدم اپنی اس عدول حکمی اور نافرمانبرداری کے سبب قربت الہیٰ سے خارج کیا گیا اور اُسکی اولاد بھی اُسکے ساتھ اُس میراث کی جو کہ اُسکو شیطان کے ورغلانے سے حاصل ہوئی وارث ٹھہری اور اگر کوئی کہے کہ آدم کے گناہ میں کل آدم زاد کیوں نکر شامل ہیں تو میں کہتا ہوں کہ میں ایک درخت کا بیچ بوویں اور اُسکے تخم سے اور درخت پیدا ہوں تو کیا وے سب ایک ہی تاثیر کے اور ایک ہی سے نہوں گے پس ہم سب جو ایک اُسی آدم کی کو اوپر زکر ہو چکا پود ہیں تو کیوں نہیں ہم اُسکے گناہ میں شامل ہیں بیشک اُسکی زاتی گناہ میں شریک ہیں اور کل بنی آدم گنہگار ہیں لیکن اکثر محمدی اسبات کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ ہم تو گنہگار ہیں مگر ہمارے نبی گنہگار نہیں اسلئے وہ ہمارے خدا کے حضور آخرت کے دن شفیع ہونگے اس دعوے کی انکشاف حقیقت کے لیے ضرور ہے کہ کچھ مختصر حال محمد صاحب کا جو مسلمانوں کے نزدیک سب نبیوں کے سردار قرار دئیے گئے ہیں تحریر کیا جائے کیونکہ جب نبیوں کا سردار لے گناہ نہ ٹھہرے گا اوروں کا خاطی ماننا کچھ دشوار نہوگا۔
اب سنئے محمد صاحب کا حال دو قسم کی کتابوں میں مندرج ہے ایک قرآن جو خود محمد صاحب کی تصنیف ہوے اور حدیث جو محمد صاحب کی تصنیف اور نہ اُنکے کسی صحابی کی بلکہ اُسکے مصنفوں نے تو محمد صاحب کا مُنہ بھی نہیں دیکھا قول اور فعل کا منضبط کرنا تو کام رکھتا ہے کیونکہ محمد صاحب کا انتقال سن ۱۱ ہجری میں ہو گیا اور پہلے امام مالک صاحب کی پیدائیش ۹۳ ہجری کی ہے اور دوم (۲) امام شافعی سن ۱۵۰ میں پیدا ہوئے تیسرے ( ۳ ) امام ابو محمد دارمی سن ۱۸۱ ہجری میں پیدا ہوئے چوتھے (۴) امام احمد حنبل سن ا۶۴ ہجری مین پانچویں (۵) امام بخاری سن ۱۹۴ ہجری میں پیدا ہوئے چھٹے (۶)امام مسلم بن حجاج سن ۳۰۴ ہجری مین ساتویں(۷) امام ترندی سن۲۰۹ ھ میں ُآٹھویں (۸) امام ابو داؤد سن ۲۰۲ ھ میں نویں (۹) امام نسائی سن ۲۱۴ ہجری میں پیدا ہوئے دسویں (۱۰) امام ابن ماجہ سن ۲۰۹ ہجری میں گیارھویں (۱۱) امام ابی الحسن دار قطنی سن ۳۰۶ ہجری میں بارھویں (۱۲) امام یا بیہقی سن ۳۸۲ ہجری میں پیدا ہوئے تیرھویں (۱۳) امام ابی الحسن سنہ پیدائیش یاد نہیں رہا مگر یہہ معلوم ہے کہ سن ۵۲۰ ھ میں انتقال کیا چودھویں امام (۴) ابن جورنی یہہ سن ۵۱۷ میں پیدا ہوئے پندرھویں ( ۱۵ ) امام لوزی سن ۶۳۱ ہجری مین پیدا ہوئے اور سن ۶۷۷ ہجری میں مر گئے۔
پس جن کی پیدائیش محمد صاحب سے سو برس سے چھہ سو برس بعد تک ہواُنکا قول نبی صاحب کے حق مٰن کیونکر صحیح ہو سکتا ہے اب ملاحظہ فرمایے کہ قرآن محمد صاحب کے لیے بے گناہ ہونیکی بابت کیا کہتا ہے۔
دیکھو قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں جو محمد صاحب کے گنہگار ہونے پر دال ہیں اگر سب کو مختصر پرچہ میں درج کیا جاوے تو سوائے نقصان اور کوئی فا ئدہ متصور نہیں اسلئے ہم صرف ایک سورہ مومن کے چھہ رکوع کی آیت لکھتے ہیں اگر اس امر میں کسی صاھب کو زیادہ تفتیش منظور ہو تو ایک رسالہ موم بہ نبی معصوم جو فی الحال مطبع نور افشان لودیانہ میں چھپ کر سائیع ہوا ہے لیکر دیکھیے اُسمیں سب نبیوں کی بے گناہی کا مفصل حال درج ہے سورہ مومن ۶ رکوع فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ إِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ترجمہ پس صبر کر بے شک الله کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہ کی معافی مانگ اور شام اور صبح اپنے رب کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کر بے شک جو لوگ الله کی آیتوں میں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل آئی ہو جھگڑتے ہیں اور کچھ نہیں بس ان کے دل میں بڑائی ہے کہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں سو الله سے پناہ مانگو کیوں کہ وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ انتہٰی اگر محمد صاحب گنہگار نہ ہوتے تو معافی مانگنے کا حکم نہوتا اب محمد صاحب کا گنہگار ہونا تو اس آیت سے ثابت ہوا مگر یہہ ہے کہ جب وہ شخص جسپر محمدیوں کی نجات کا مدار تھا محتاج شفاعت ہے تو اب کون شخص ملے جسکے زریعہ سے نجات حاصل ہو پس کوئی نہیں مگر خداوند یسوع مسیح جو پکاُر پکار کر کہتا ہے کہ اے تھکے ماندو میرے پاس آؤ میں تمکو نجات دونگا۔ اور قرآن بھی اُسکی معصومیت کا قائل ہے۔