مسیح ِمصلُوب
(بقلم جناب اسحقٰ رحیم بخش صاحب ، بی ۔ اَے، ایل۔ ایل۔ بی، جج عدالت خفیفہ، لاہور)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فلورنس کی ” نیوزی آرٹ گیلری“ میں ایک سیاّح نے ناظم گیلری سے طنزاً کہا ” کیا یہ تُمہارے شاہکار ہیں“؟ مُجھے تو اِن میں کچُھ نظر نہیں آتا۔ ناظم نے جواباً کہا۔ ” جناب امتحان اِن تصاویر کا نہیں۔ دیکھنے والوں کاہے۔“
حُضور المسیح کی زمینی حیات طیّبہ جِس کی تکمیل صلیب پر ہوُئی۔ نسل اِنسانی کے اِخلاقی ضمیر کے لئے ایک چیلنج ہے جو اِس چیلنج کو قُبول نہین کر سکتے تو یہ مسیحیت کی اَصل پر صَرف نہیں بلکہ خوُد اُن کی اخلاقی نا اہلّیت پر حرِف آخِر ہے۔ کِس کو گمان تھا کہ ذبیحۂ اللہ کی صلیب کی قُوتّ ہر دور میں تاریخ کے دھارے کا رُخ پِھیر دے گی؟
عام تصّور میں گردش ایاّم کو پیچھے دوڑائیے۔ کو کلوّری کے دامن میں ایک جمعہ کے روز اپنے کو یروشلؔم میں ایک ہجوم میں گھِرا پایئے۔ آپ ایک یُہودی سے سوال کر رہے ہیں کہ دُنیا کے اختیار کا مرُکز کیا ہے۔ وُہ اختیار جو تمام عالم پر محیط ہو گا؟ کیا آپ یہ جواب نہ سُنیں گے کہ ”مُرکز عالم ہیکل ہے۔ تاریخ کے زرّیں کارنامے اِس سے وابستہ ہیں اور آیندہ بھی زرّین تعلقات اور اُمیدیں وابستہ ہیں“ ایک رومن اِس جواب سے سیخ پا ہو کر طنزاً یہ کہہ رہا ہے “ رُوم کا ابدی شہر تمام دُنیا کی مَلکہ ہے۔ اختیار قُدرت و حیُروت کا مرُکز“ یہ جواب یوُنانی کو اپنی خاموشی توڑنے پر مجبوُر کرتا ہے ” کیا آپ نے ایتھنز دیکھا ہے؟ دُنیا کے تمدّن اور عِلم و حکمت کا مرُکز۔ رُوما کی ماّدی قُو تّ کو ایتھنز کا تمّدن اور فلسفہ نیچا دکھائیں گے“ کیا وُہ ہمارے اِس جواب پر مضحکہ خیر قہقہ نہ لگائیں گے کہ زندگی کی قُوتّ کا مرٔکز وُہ سے جو صلیب پر لٹکا ہے ہیٔکل کی اینٹ سے اینٹ بجے گی۔ کو ئی پتّھر تک باقی نہ رہے گا۔ رُوم کی حشمت قّصّۂِ پار یتہ بن جائے گی۔ ایتھنزکا فلسفہ صرف چند طالب علموں کے زوق تجسُّس کو تسکین پہنچائے گا۔ مگر اِس مصلوُب کی قُوّت زمانہ بہ زمانہ فِکر انسانی کی نوک پلک دُرست کرتی رہے گی اور اِس کے مطالبے اِنسان کی بگڑی اور پراگندہ طبیعت کو ہر وقت جھنجھوڑتے بے پناہ قُوتّ سے اِنکار کی جُرأت کر سکتے ہیں۔ جسمانی ازّیت جو حساّس ِطبیعتوں پر یقیناً اثر انداز ہوتی ہے صلیب کی اصل نہیں۔ مسیحیت کی ابتدائی چار پانچ صدیوں میں ایک دلچسپ حقیقت یہ وہی ہے کہ حضُور المسیح کی صلیبی مؤت کی نقاّشی توجّہ کا مرٔکز قطعاً نہ تھی اور نہ ہی صلیب کو نشان کے طور پر لوگ اپنے گلے میں لٹکائے یا ہاتھ میں اُٹھائے پھرتے تھے۔ زبیحۂ عظیم کا مُقدّس واقعہ اور زِندہ جاوید المسیح کی حقیِقی رفاقت کا تجربہ مرکزِ فکرِوعمل تھا۔ یہ بات خطرہ سے خالی نہیں کہ کانٹوں کے تاج ۔ میخوں اور کوڑوں پر اپنی توجہّ مبذُول کر کے ہم اُن اخلاقی اور روُحانی اقدار کو جو اُس وقت خطرہ میں تھیں اور أب بھی ہیں فراموش کر دیں۔ یروشؔلؔم کے محاصرہ کے بعد قیصِر طیطؔس کے حُکم سے تیس ہزار یُہودیوں نے جنہیں صلیب پر لٹکایا گیا حُضور المسیح سے زیادہ ازّیت برٔداشت کی ہو گی لیکن اُن کی جسمانی ازّیتیں اُن کے نام کو قہر گمنامی میں دھکیلے جانے اور اُن کے مُلک کو تباہی سے نہ بچا سکیِں۔ حضُور المسیح کی مؤت جسمانی ازیتوّں کے باعِث مرکزِ توجّہ نہیں بلکہ اِن رُوحانی اقدار کی حفِاظت کے باِِ عِث ہے جن کی مَوت سے شیطنت اور آدمیت میں کوئی تفریق نہ رہ جاتی۔
صلیب اُن ضمائر کے لئےِ قُو تّ و ایمان کا سر چشمہ ہے جن میں حق کی پاسبانی کے ہر وقت اور ہر گھڑی باطل کی آزمائشوں اور قُوتّوں کی کشمکش اور جنگ جاری ہے جس کے نتیجہ پر نہ صرف فَرد بلکہ کُل انسانیت کا بقا کا انحصار ہے۔
اگر حضوُر المسیح کی قیامت ایک ” شاعرانہ تخلیق“ یا ”افسانہ“ تھی اور زخموں سے نڈھال ہو کر عالم ِ بیہوشی میں سونے والا۔ مرہم عیسےٰ کے طفیل ۔ حواریوں اور بَددیانت رومن گارڈ کی معاونت سے پتّھر لڑھکا کر قبر سے با ہر آگیا تو اِس افسانہ سے زیادہ ناقابل اعتماد وُہ حقائق ہیں جو حضوُر المسیح کو وجہیا”فی الدنیا وا لآخرت“ ”کلمتہ اللہ و رُوح اللہ“ کے القاب گرامی سے مُمیّز کرتے ہیں۔ ماُیوسی۔ ناکامی اور خوف سے متاثرہ گروہ ِجن کے پا س جُمعہ کے رات زِندگی اور اُس کے اقتدار کا کوئی مصالحہ و سامان نہ تھا۔ کِس کی قُوتّ و رُوح سے لبریز و سرشار ہو کر اَیسی تحریک کا رُوح رِواں بنا جِس نے بدی کو اُس کی خندقوں میں للکارا۔ أبدی و ازلی روما کو زیر و زبر کیا۔ ( عسکری قُوتّ سے نہیں) خُدا کی صُورت پر پَیدا کئِے گئے اِنسان کو اُس کی عظمتوں سے آشنا کیا۔ آدم خوروں کو آدمیت کا پاسبان بنایا۔ مُحبت۔ مُعافی۔ نجات۔ رحم اور ظاہری پارسائی کی بجائے رُوح و ضمیر کی عبادت کو سرُبلندی اور بُزرگی کا طُّرهٔ اِمتیاز بیایا۔ کیا یہ رُوح اِنسانی کا انقلابِ عظیم ایک جُھوٹ پر اُستوار کیا گیا تھا؟
”قانون“ تو اَن پڑھوں کا گروہ بھی مرتّب کر سکتا ہے۔ ” رواج“ بھی قانُون کی عظمت حاِصل کر سکتا ہے۔ قانُون کے رُوحانی تقاضوں کو پُورا کرنے کی اہلیّت بلا جبر و اِکراہ کو ن بخشتا ہے؟ خیال و نظر کو وُہ پاکیزگی جِس سے جِسم تو درکنار زہن بھی آمادۂ گناہ نہیں ہوتا کِس کے فیضانِ نظر کا کرشمہ ہے؟ مَرد و زن کو ایک ہی جماعت میں ہم رُتبہ کر کے ”نجس جنِسّیت“ کے برص سے پاک و صاف رکھنے والا کیا ” جُھوٹ اور فریب “ کا خُدا تھا ؟ اشتراکیت کا ” سوشل اِنصاف“ کِس کا ”پس خوردہ“ ہے۔ ” گُناہ“ اور اُس کے مکروُہ نتائج تو سب نے سمجھا دئیے۔ لیکن گُناہ کے مکرُوہ برص سے پامال و نڈھال اِنسان کو کِس نے اپنے سیِنے سے لگا کر ” خُدا کے فرزند“ اور ” لے پالک“ ہونے کا فخر و حق بخشا۔ الہیٰ زندگی کا پیوند۔ بے برَانسانیت میں کس کے خوُن اقدس سے مکمّل ہوُأ؟ اگر بندهٔ مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے تو پھر روُحُ القدس سے تیاّر کِیا ہُوأ المسیح کا جِسم اطہر کیوں ” بیت اللہ“ نہیں۔ اور اِس زندہ ہیٔکل اپنی ازلی اور أبدی محبت کا ثبوت دینا کیوں توہین اِلہیٰ ہے؟ اِنسان سے اتم قُربانی کا مُطالعہ عین شان ِخدُاوندی ہے۔ لیکن اپنی صُورت پر بنائے ہوُئے اِنسان کو ”حیاتِ نو“ دینے کے لئے آسمانی مقاموں کو چھوڑنا اُس کی زلّت پر دال ہے! صلیب کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ؎
ما از خُدا گمشدہ ایم اُو بہ جُستجو ست
چُوں ما نیاز مند و گرفتازِ آرزو ست
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ