en-USur-PK
  |  
21

آزادی اور قید

posted on
آزادی اور قید

Freedom and Prison

Noor-e-Afshan January, 8 1885

آزادی اور قید

از رفیق نسوان

ہر قسم کی قید سے انسان کو  ایک طرح کی بیچینی  اور تکلیف  لاحق ہو تی ہے لڑکا کھیل کو د میں خوش  ہے  اِدھر سے اُدھر کو کودتا ہے اتنے میں مولوی صاحب نے آواز دی کہ پڑھنے آؤ لڑکے کارنگ اڑگیا ہاتھ پاؤں سُست پڑ گئے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہی ہے کہ وہ کھیلنا چاہتا ہے مگر  مولوی صاحب کے آنے سے قید ہو گئی۔ اس قسم کی قید سے جو اضطراب  ہو جاتا ہے اُس سے شائید  ہر شخص واقف ہو گا۔ مگر اس قید پر کیا موقوف ہے۔ کسی قسم کی قید کیوں  نہ ہو ایک بیقراری پیدا کرتی ہے۔ قیدی کو قید خانہ  میں مریض کو پرہیز میں ۔ طالب علم کو موسم گرما میں پانچ بجے آنکھ  ملتے ہوئے  بیدار ہونے میں۔ جو  بیچینی ہو تی ہے وہ ظاہر ہے۔ ان وجوہ سے ہر نوع انسان کو ہر قسم کی قید سے گریز ہے اور کامل آزادی کی جانب میلان ہے۔ مگر یہ نہیں  جانتے کہ انسان کیواسطے  قید سے بالکل مبّرا ہونا ناممکن ۔ یہ امر ممکن ہے کہ ایک  قید سے  جدا ہو۔ اور دوسری قید کو اختیار  کرلے  مگر قید خواہ مخواہ ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ راہِ نیک میں بہت کچھ پابندی اور قید ہے۔ اور راہِ بد میں بہت آزادی  ہے۔ نیک اور متقّی بزارہا قواعد کی پابندی کرتا ہے۔ اپنی خواہشوں کو روکتا ہے۔ اور بد اطوار جو چاہتا ہے  سو کرتا ہے۔ جو خواہش پیدا ہوتی ہے اُسکو روکتا  نہیں۔ زرا غور کرنے سے معلوم ہو  جائے گا کہ یہہ کس قدر غلط خیال ہے۔ یہہ تو ہم پہلے ہی دن بیان کر چکے ہیں کہ آزادی مطلق انسان کو میسر  نہیں ہو سکتی ہے۔ مگر زیادہ سے زیادہ  آزادی جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ راہ ِنیک میں ہے اول تو جو قید اور پابندی کہ نیک اور متقّی  کے واسطے ہو اُسکو وہ خود اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے۔ ایک شخص  نے راست  گوئی کو اپنا شعار بنایا ہے اسمیں ایک طرح کی قید  بیشک ہے مگر  وہ قید  اُسنے خود اختیار کی ہے۔ کو ئی شخص اُسکو جھوٹ بولنے  سے باز نہیں  رہ سکتا کو ئی  کہے کہ کبھی کبھی جھوٹ  بالنے سے سزا یا بیعزتی کا خوف ہے اور یہہ خوف سچ  بولنے پر مجبور  کرتا ہے۔ مگر نہیں صرہا موقع ایسے ہیں کہ جہاں انسان ضھوٹ بول سکتا ہے۔ اُس جھوٹ سے نہ سزا ہو سکتی  ہے اور نہ بیعزتی۔ بلکہ اُسکا افشاتک نہیں ہو سکتا  غرضکہ یہہ صاف ظاہر کہ جس نے راستی اپنا شیوہ بنایا ہے اُسنے یہہ قید اپنی مرضی سے خودف اختیار کی ہے  اور اسوجہ سے وہ قید کم ناگوار معلوم ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ راہ نیک اور روح انسانی میں ایک موافقت ہے  جس طرح مچھلی کو پانی موافق  ہے اُسیطرح روح انسان کو نیکی موافق ہے۔ اب اگرچہ مچھلی کو دریا میں ایک طرح کی قید ہے۔ دریا کے باہر نکل کر خشکی میں نہیں آسکتی مگر اس قید کو قید کہنا واجب نہیں۔ کیونکہ اُسمیں اُسکی بہبودی اور خوشی متصورر ہے۔ اور پھر اُس دریا کے چلنے پھرنے  میں کوئی قید نہیں۔  علی ہذا القیاس راہ نیک میں بھی انسان کی اصلی خوشی متصور ہے اور راہ نیک میں بھی کچھ وسعت  ہے۔ ہزارہا قسم کے افعال حسنہ ہیں۔ جس امر نیک میں طبیعت  راغب ہو اختیار کر لے۔ مگر راہِ نیک سے باہر آنا اُسیطرح نا مناسب  ہے جسطرح مچھلی کا دریا سے  باہر آنا۔ سوم یہ ہے کہ نیک آدمی اپنے اوپر خود قید اختیار  کرنے سے صد ہا قسم کی خارجی قیدوں سے بچتا ہے۔ جو کہ بد اطوار کو مجبوراً برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص کی ایک کتاب چوری کرنے کی نیت ہوئی  اس کی نیت  کتاب چورانے  پر آمادہ ہوئی مگراسنے اپنی خواہش کو قید میں رکھا اور راہ نیک پرثابت قدم رہا  تو اُسکو صرف ایک قید برداشت کرنی پڑی  یعنے ایک مرتبہ  اُسکی  خواہش  کے خلاف ہوا۔ برخلاف اُسکے اگر دوسرے شخص نے قید اور ضبط کو بہت برُا سمجھ کر غیر شخص کے مال پر  ہاتھ  بڑھایا۔ اچھا ایک قید کو نہ اختیار کرنے سے دیکھنا چاہیئے کہ وہ قید سے بالکل بچ جاتا ہے یا نہیں۔ لیجئیے  کسی نے چوری کرتے دیکھ لیا۔ اب یہ شخص یہ چاہتا تھا کہ اسے کو ئی  شخص نہ دیکھتا اور سخت پیچ و تاب کھاتا ہے مگر اُس کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ ایک شخص جرم کو دیکھ چکا ۔ معاملہ لاعلاج ہوگیا۔ لاکھ پیچ و تاب کھاتا ہے مگر اِس پیچ و تاب  سے رہائی  ممکن نہیں یہ اول قید ہے۔ جو بداطوار  کو ابتدا میں قید مناسب سے بھاگنے کی وجہ سے لاحق ہوئی۔   

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, اسلام | Tags: | Comments (0) | View Count: (53825)
Comment function is not open
English Blog